Saturday, July 24, 2010

شناخت

خالد ایک امیر ماں باپ کا بیٹا تھا-اسے بچپن سے انگریزی سکولوں میں تعلیم دلائ گئ تھی اوراس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ بات چیت کے دوران اسکی زبان سے اردو کا کوئ لفظ نہ نکلنے پاءے-ایک دن خالد کو کیا سوجھی کہ گھنے جنگل کی طرف نکل گئا-راستے میں ا یک بوتل پڑی ملی-بوتل کھولی تو اس میں سے دھواں نکلا اور ایک حسین لڑکی کی صورت اختیار کر گیا-خالد اسے دیکھ کر مہبوت رہ گیا-لڑکی بولی-”میں ایک جن زادی ہوں-مجھے بوتل میں قید کر دیا گیا تھا-میں اب تم سے ہی شادی کروں گی”-یہ کہ کر وہ اسے اپنے پروں پر بٹھا کر اپنی بستی کی طرف اڑنے گی-جب وہ ستی پہنچے تو شور مچ گئا-جن زادی کے ماں باپ بےحد خوش تھے-انہوں نے بیٹی کی شادی کی شرط بھی قبول کر لی-اسکے باپ نے خالد سے پوچھا-”تم کون ہو اور کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟” خالد ہچکچایا پھر بولا-میں پاکستانی ھوں”- ”یہ کہاں ہے اس میں کیسے لوگ رھتے ھیں-کچھ بتاؤ”-خالر سوچ میں پڑ گئا-خالد کو کچھ سمجھ نہ آیا-لڑکی کا باپ بولا-وھاں کی قومی زبان تو اردو ے پر تمھاری زبان سے تو اردو کا ایک لفظ بھی نھیں نکلا”-”پھر کچھ عماء نے پاکستان پر ریسیرچ شروع کی-یہ 1947 میں اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا-بھر خالد کو دیکھ کر بولے-’تمھارا تو پھناوا بھی انگیزوں جیسا ھے-خالد بے حد شرمندہ ھواپھر کچھ عماء نے پاکستان پر ریسیرچ شروع کی-یہ 1947 میں اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا-بھر خالد کو دیکھ کر بولے-’تمھارا تو پھناوا بھی انگیزوں جیسا ھے-خالد بے حد شرمندہ ھوا-پھر کچھ مزید ریسیرچ کے بعد ایک جن بولا-اسکا نام تو جمھورئہ پاکستان ھے-لیکن یہاں تو کسی قسم کی جمھورئت نظر نھیں آتی-
پھرجنزادی کے باپ نے پوچھا-’تم پاکستان کےکس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟’ خالد بولا- ’میرا تعلق فرنٹئر سے ہے-’ ایک پڑھا لکھا جن بولا-’ اس کا نام تو اب پختونخاہ رکھ دیا گئا ھے-’’ جن زادی کا باپ حیران ھوا-بولا’ کل تک تم فرنٹئر سے تھے-آج کچہ ھو گئے ھو- کل کچھ ھوجاؤ گے- کوئ شناخت ھے تمھاری؟ خالد بولا-’نہ صوبے کا نام میں نے بدلا ھے-نہ اپنے رھن سھن کا میں زمہ دار ہوں- میں دل کا برا نیں ہوں -آپ کی بیٹی کو خوش رکھنے کی کوشش کروں گا-انسان کی سب سے بڑی شناخت وہ خود ھوتا ھے- ’ بزرگ مان گئے -خالد اور جن زادی کی شادی ھو گئ اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے

No comments:

Post a Comment